Amjad Islam Amjad

4 August 1944 / Sialkot

ایک پل - Po

آہستگی سے گھٹتی ہوئی سہ پہر کی دھوپ
دل میں اُتر رہی ہے کسی خواب کی طرح
نیلے فلک پہ ابر کے ٹکڑے کہیں کہیں
لرزاں ہیں دل کے ساز پہ مضراب کی طرح

صحنِ چمن میں ڈولتے رنگوں کے درمیاں
ہے ایک بے قرار سی خوشبو رُکی ہوئی
ٹھہرے ہوئے سے وقت کی سرگو شیوں کے بیچ
تتلی کوئی ہے پھول کے لب پر جھکی ہوئی

پتے صبا کے پاؤں کی آہٹ کے منتظر
شاخوں کے درمیاں کوئی ھیرت رواں سی ہے
بیٹھی ہے یوں وہ گھاس پہ پھولوں کے روبرو
آنکھوں کے آس پاس کوئی کہکشاں سی ہے

چہرے پہ دھوپ چھاؤں کا میلہ لگا ہوا
شانوں پہ بے دریغ سے گیسو کھلے ہوئے
قوسِ قزح نے اپنا خزانہ لُٹا دیا
رنگت میں اس کی رنگ ہیں سارے گُھلے ہوئے

آہٹ پہ میرے پاؤں کی دھیرے سے چونک کر
دیکھا ہے اُس نے مڑ کے مجھے اد ا کے ساتھ
پھیلی ہے جسم و جاں میں عجب ایک سر خوشی
خوشبو سی کوئی اُڑنے لگی ہے ہوا کے ساتھ
206 Total read