Amjad Islam Amjad

4 August 1944 / Sialkot

آبِ حیات - Poem

۔۱۔
آتے جاتے موسموں کی لوح پر
لکھے ہواؤں نے
بہت سے لفظ ایسے
جن کے معنی، اب کسی کو بھی نہیں آتے
کہ وہ گزرے زمانوں کے کسی انجان دوراہے پہ
رستہ بھول بیٹھے تھے
نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہ ماضی میں تو زندہ ہیں
مگر کچھ اس طرح جیسے
'مشینوں کے توسط سے کوئی کومے میں زندہ ہو'
کچھ ایسے لفظ بھی اس لوح پر لکھے ہوئے ہیں
جن کے معنی اب نہیں ظاہر
مگر اک وقت آئے گا
کہ یہ مفہوم کی پوشاک پہنیں گے
بلند آواز میں بولیں گے اور باتیں کریں گے
۔۲۔
کبھی کے مر چکے اور آنے والے لفظ میں کیسا یہ رشتہ ہے
کہ دونوں ایک ہی لمحے میں زندہ بھی ہیں ۔۔مردہ بھی
ہمارا کام تو بس لوح کی خالی جگہوں پر
حاشیوں کی بالکونی سے
انہیں آواز دینا ہے
کہ یہ اپنی جگہ پر آ کے بیٹھیں تو
ہماری بات بھی تحریر میں آئے
ہمارے ہست کا منظر کسی تصویر میں آئے
۔۳۔
ہمیں معلوم ہے اک دن
گزرتے وقت کی دیمک ہمیں بھی چاٹ جائے گی
کہ یہ اس کا وظیفہ ہے
یہ روشن دن جو نکلا ہے یہ آخر شام بھی ہوگا
' وہ مہلت جو ملی ہم کو وہ کیسے بے ثمر نکلی!
وضاحت کون سُنتا ہے
تلافی کس سے مانگیں ہم '
ہمارے سر پہ اپنے خون کا الزام بھی ہوگا
تو اس دیمک کا رزقِ بے نشاں بننے سے پہلے
آخری حیلہ تو کر دیکھیں
جو کا غذاپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر دیکھیں
بہت مشکل سہی لیکن نہیں امکان سے باہر
کہ وہ الفاظ جن کے آج تک معنی نہیں ظاہر
ہم اُن کا بھید پا جائیں
اُنہیں اس لوح پر لکھی ہوئی تحریر کا حصہ بنا جائیں
اگراُس موڑ سے پہلے
جہاں اس بے جہتکاوش کو رزقِ خاک ہونا ہے
جہاں اس زندگی کے قرض کو بے باق ہونا ہے
جہاں پر ہر بقا لمحہ ، فنا پیغام بھی ہو گا
جہاں خورشید کا سایہ شریکِ شام بھی ہو گا
اگر اُس موڑ سے پہلے
کسی صورت
ہم ان لفظوں کے پوشیدہ معانی جان پائیں تو
سمے کی لوح پر لکھے ہوئے کچھ خاص ناموں میں
ہمارا نام بھی ہوگا
ہمارا کام بھی ہوگا۔
159 Total read